Ashfaq Ahmed Golden Quotes About Life in Urdu text
Now download and read Ashfaq Ahmed Golden Quotes / Sayings in Urdu. You can also copy-paste text.
مَصائِب اور مُشْکِلات اِتْنی ہی شَدِید ہوتی ہیں جَیسا کہ آپ نے اُن کو بنا دِیا ہے۔وہ آپ کی ساری زِنْدَگی کا ایک حِصّہ ہوتی ہیں،ساری زِنْدَگی نہیں ہوتیں۔
وہ شَخْص ذَہِین ہے جو خود کو ماحَول میں ایڈجسٹ کرے۔اگر وہ ایسا نہیں کر رہا،اِس کا مَطْلَب ہے اُس کی ذِہانت میں کوئی خَرابی ہے۔
جو شَخْص تُجھ سے مانگتا ہے اُس کو دے۔کیا یہ تیری اَنا کے لئے کم ہے کہ کسی نے اپنا دستِ سوال تیرے آگے دَراز کیا۔
مَحبُوب وہ ہوتا ہے جِس کا نہ ٹِھیک بھی ٹِھیک نظرآئے۔
لوگوں کو پیسےکی،رُوپے کی اتنی ضَرُورَت نہیں ہوتی،جتنی احترام کی، عِزَّتِ نفس کی، تَوقِیرِ ذات کی ہوتی ہے۔
تُم جَیسے کَیسے بھی ہو، اَنْدَر سے ٹِھیک ہونا بَہُت ضَرُوری ہے اور جَب تک اَنْدَر ٹِھیک نہیں ہو گا اُس وَقْت تک کوئی بھی مشین ٹِھیک نہیں چَلےگی۔
وہ مومِن جو ماضی کی یاد میں مُبتلا نہ ہو اور مُسْتَقْبَل سے خَوف زَدَہ نہ ہو،اُس کو صاحبِ حال کہتے ہیں۔
جُوں جُوں آدْمی دُوسْرے آدْمی پر اِنْحِصار کرے،تو وہ اللہ سے اُتنا ہی دور ہو جاتا ہے۔
اللہ کہتا ہے جو کُچھ تمہارے خَرچ سے باقی بچے،وہ سارے کا سارا دے دو۔
مُحَبَّت کا راسْتَہ اور ہے جبکہ مَعْلُومات کا راسْتَہ اور ہے۔
خَیال کی طاقَت بَڑی طاقَت ہوتی ہے۔
مُسَلْمان وہ ہوتا ہے جس کا دِل صاف ہو اور ہاتھ گندے ہوں(جو بہن بھائیوں کے کام کرتا رہے گا،اُس کے ہاتھ تو گندے ہوگے)۔اپنے ہاتھ گندے رکھو اور اپنا دِل صاف ستھرارکھو۔
بھیجنے والے نے اِنْسان کوکسی کام کے لئے،کسی عمل کے لئے بھیجا ہے،صرف پڑھنے پڑھانے کے لئے نہیں۔جو لوگ پڑھنے پڑھانے کو عمل سمجھتے ہیں،وہ عمل کےلئےدیا گیا وقت ضائع کرتے ہیں۔
بابا وہ شَخْص ہوتا ہے جو دوسروں کو آسانی عطا کرے۔اگر آپ زِنْدَگی میں کبھی کسی شَخْص کو آسانی عطا کر رہے ہیں تو آپ بابے ہیں۔اگر آسانی نہیں عطا کر رہے تو پھر آپ اپنی ذات کے ہیں۔
تلاوت الوجود ۔۔۔خود کو قریب آنے دو۔اپنے ساتھ بیٹھو گے تو بہت سارے سچ آکر آپ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔
جو حال میں جَنَّتی ہے،مستقبل میں وہی جَنَّتی ہو گا کیوں کہ اِسی حال کا مستقبل بننے والا ہے۔
جو چیزیں آپ کو ڈراتی ہیں وہ مصنوعی ہوتی ہیں۔ڈرانے والے کوئی چیز نہیں ہوتی۔اگر کوئی چیز ڈرانے والی ہے تو وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔اس کے علاوہ کوئی نہیں۔
تھوڑی سی مُحَبَّت تھوڑی سی اُلْفَت تھوڑی سی مسکراہٹ جاری کرتے رہنا چاہیے یہ چیک کیش کرانے پر کوئی خرچہ نہیں آتا۔
نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ مسکراہٹ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔کبھی کبھی اسے جاری کر دیا کریں۔ہنس کے بول پڑو۔لیکن ہمارے ہاں یہ مفقود ہو گیا ہے۔حسد ہو گیا،لڑائی ہوئی،جھگڑے ہو گئے۔ہم مُحَبَّت تو ایک طرف رہی مسکراہٹ بھی کسی کو ادا نہیں کر سکتے ۔حالانکہ جب آپ کسی سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں، گُھوری ڈالتے ہیں ،ماتھے پر سَلْوَٹَیں ڈالتے ہیں تو آپ کے چہرے کے 72 مسلز یعنی عضلات کام کرتے ہیں۔ اگر مسکرائیں تو صرف دو مسلز ٹینشن میں آتے ہیں۔کتنا آسان کام ہوتا ہے لیکن ہو نہیں پاتا۔
جب تم زِنْدَگی داخل ہوتے ہو،کسی نئے کمرے میں جاتے ہو تو تمہارے آگے اور دروازے ہیں جو کھلنے چائیں۔یہ نہیں کہ تم پیچھے کی طرف دھیان کر کے بیٹھے رہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ خرچ کرو۔روپیہ ایک جگہ پر پڑا نہ رہے کیونکہ یہ کھاد کا جو ڈھیر ہوتا ہے “روڑی” جسے کہتے ہیں اگر اسے کھیتوں میں پھیلا دیا جائے تو یہ سونا ہے اور اگر اسے ایک جگہ پر جمع رکھا جائے تو یہ بدبو کا گھر ہے۔کوئی گاؤں اس کے قریب بس نہیں سکتا۔
قول ایک سواری ہے جو آپ کو عمل کے کنارے پر لے جاتی ہے۔خرابی یہ ہوتی ہے کہ ہم قول کی سواری کو اختیار کرتے ہیں،اس کشتی میں بیٹھتے ہیں،جو چپو چلاتے ہیں،عمل کے کنارے پہنچ جاتے ہیں لیکن اس کشتی کو چھوڑتے نہیں اس کے اندر رہتے ہیں۔وہ وہیں چکر کاٹتی رہتی ہے۔عمل کا کنارا سامنے رہتا ہے اور ہم اس کی طرف جا نہیں رہے ہوتے اور ہم کوشش یہ کرتے ہیں کہ کمیونیکیشن سے صرف ڈائیلاگ سے،صرف گفتگو سے بات بن جائے۔
ہمارا اللہ ایک ہے،ہمارا رسول ﷺایک ہے،ہمارا نماز پڑھنے کا طریقہ ایک ہے،ہمارا قیامت کے اوپر ایمان ایک سا ہے۔لیکن اس کے باوجود یکجہتی نہیں ہوتی۔کیوں نہیں ہوتی؟ جب تک ایک دوسرے کا دکھ درد نہیں سنیں گے،ایک دوسرے کے بارے میں جانیں گے نہیں کہ کون کس کیفیت سے گزر رہا ہے،تو محض گفتگو کرنے سے کام نہیں بنتا۔
تو جب مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں تو اگر آپ ان کو غور سے دیکھیں کہ ان کا ایک حصہ بالکل چھوٹا سا فریکشن،آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن ہم نے وہ دھبہ پھیلا کر اتنا وسیع تر کر لیا ہوتا ہے کہ پھر وہ اپنے ہمارے اختیار میں نہیں رہتا اور وہ پھر پھیلا ہوا دھبہ ہمارا حکمران بن جاتا ہے۔
تعریف و توصیف بھی واجب ہے۔اگر واجب نہیں تو بھی کی جانی چاہیے تا کہ انسانوں کے درمیان، اتحاد اور ہم آہنگی اور ایک unity پیدا ہو۔ شکریہ ادا کرنے سے آدمی خود مفرح ہوتا ہے۔اس کی روح پر،اس کے وجود پر،اور اس کی شخصیت پر اور اس کی فردیت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
اگر آپ تہیہ کرنا چاہتے ہیں تو مجھ سے نہ پوچھیں،اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ جب تک آپ کی کنوکشن نہیں ہوتی،باہر کی لائی ہوئی تبدیلی کسی طرح سے بھی آپ کی مدد نہیں کرسکتی۔
جب بھی لوگوں کو خطاب کرنے لگو اور کبھی بہت بڑا مجمع تمہارے سامنے ہو تو کبھی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب نہ کرنا،ہمیشہ اپنی آواز دور پیچھے کی طرف پھینکنا۔وہ لوگ بڑے شرمیلے سے ہوتے ہیں،شرمندہ جھکے جھکے سے ہوتے ہیں وہ ہمیشہ پچھلی قطاروں میں بیٹھتے ہیں۔آپ کا وصف یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنی بات اُن کے لئے کہیں۔جب بات چھوٹوں تک پہنچ جائے گی،بڑوں تک خود بخود پہنچ جائے گی۔
مکھی محسن ہے جو بغیر ٹیکس لئے انسان کو یہ بتانےآتی ہے کہ یہاں گند ہے۔اُسکو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی۔
یہ قسمت والوں کا خاصا ہوتا ہے کہ وہ اپنا سارا بوجھ اس (اللہ)کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس کے ساتھ چلتے ہیں۔
اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اپنا سارا سامان،جتنا بھی ہے اس کی روشنی میں رکھ دیا جائے اور جب اس کی پوری کی پوری روشنی سے وہ پورے کا پورا لتھڑ جائے توپھر کوئی خطرہ کوئی خوف باقی نہیں رہتا۔