نماز اور مراقبہ
مکمل کتاب : جنت کی سیر
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
سوال: مراقبہ کیا ہے؟
جواب: ہم یہ بات بتا چکے ہیں کہ انسان کےاندر دو دماغ کا کرتے ہیں۔ ایک دماغ جنت کا دماغ ہے یعنی اس کے ذریعے کوئی بندہ جنت سے آشنا ہوتا ہے اور جنت کی زندگی گزارتا ہے۔ دوسرا دماغ وہ دماغ ہے جو آدم کی نافرمانی کے بعد وجود میں آیااور آدم نے نافرمانی کے بعد محسوس کیا کہ میں ننگا ہوں۔ ان محسوسات اور نافرمانی کے نتیجے میں جنت نے آدم کو رد کر دیا اور آدم زمین پر پھینک دیا گیا۔ تصوف میں جتنے اسباق اور اوراد و وظائف اور اعمال و اشغال اور مشقیں رائج ہیں ان سب کا منشاء یہ ہے کہ آدم زاد اپنا کھویا ہوا وطن واپس حاصل کرے۔سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان تمام اوراد و وظائف اور اعمال و اشغال اور مشقوں کو نماز میں سمو دیا۔ ہم جب دنیا کی حقیقت اور نماز کے اراکان پر غور کرتےہیں تو ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز میں زندگی کے ہر عمل کو سمو دیا گیا ہے۔ چونکہ قیام الصلوٰۃ کا ترجمہ ربط قائم کرنا ہے اس لیے ضروری ہوا کہ کوئی ایسا عمل تجویز کیا جائے جس عمل میں زندگی کی تمام حرکات و سکنات موجود ہوں اور ہر عمل اور ہر حرکت کے ساتھ آدمی کا رابطہ اللہ کے ساتھ قائم ہو۔
مراقبہ کے معنی ہیں کہ تمام طرف سے ذہن ہٹا کر ایک نقطہ پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنا اور یہ مرکزیت اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے۔ جب تک کہ کوئی بندہ ذہنی مرکزیت کے قانون سے واقف نہیں ہوتا، وہ اللہ کے ساتھ ربط قائم نہیں کر سکتا۔ ربط و تعلق قائم کرنے کے لیے مراقبہ ضروری ہے۔ مراقبہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام ﷺ کی وہ پہلی سنت ہے جس کے بعد قرآن نازل ہوا۔
سوال: مراقبہ کیسے کیا جائے؟
جواب: حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہر امتی یہ بات جانتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام ﷺ نے غارِ حرا میں طویل عرصے تک عبادت و ریاضت کی ہے۔ دنیوی معاملات ، بیوی بچوں کے مسائل، دوست احباب کےتعلقات سے عارضی طور پر رشتہ منقطع کر کے کسی گوشے میں بیٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا مراقبہ ہے۔ صاحبِ مراقبہ کے لیے ضروری ہےکہ جس جگہ مراقبہ کیا جائے وہاں شور و شغب نہ ہو، اس جگہ اندھیرہ ہو۔ جتنی دیر اس جگہ گوشے میں بیٹھا جائے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ذہن کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھے۔ بند آنکھوں سے یہ تصور کرے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔
پرہیز و احتیاط!
- مٹھاس کم سے کم استعمال کی جائے۔
- کوشش کی جائے کہ کسی قسم کا نشہ استعمال نہ کیا جائے اور اگر عادت ہے تو کم سے کم استعمال میں آئے۔
- کھانا آدھا پیٹ کھایا جائے۔
- ضرورت کے مطابق نیند پوری کی جائے اور زیادہ دیر بیدار رہے۔
- بولنے میں احتیاط کیجائے ، صرف ضرورت کے مطابق بولا جائے۔
- عیب جوئی اور غیبت کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔
- جھوٹ کو اپنی زندگی سے یکسر خارج کر دیں۔
- مراقبہ کے وقت کانوں میں روئی رکھیں۔
- مراقبہ ایسی نشست سے کریں جس میں آرام ملے لیکن ضروری ہے کہ کمر سیدھی رہے، اس طرح سیدھی رہے کہ ریڑھ کی ہڈی میں تناؤ واقع نہ ہو۔
- مراقبہ کرنے سے پہلے ناک کے دونوں نتھنوں سے آہستہ آہستہ سانس لیا جائے اور سینےمیں روکےبغیر خارج کر دیا جائے۔ سانس کا یہ عمل سکت اور طاقت کے مطابق 5 سے 21 بار تک کرے۔
- سانس کی مشق شمال رخ بیٹھ کر کی جائے۔
- پانچ وقت نماز ادا کرنے سے پہلے مراقبہ میں بیٹھکر یہ تصور قائم کیا جائے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔آہستہ آہستہ یہ تصور اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے ہر عمل اور ہر حرکت میں یہ دیکھنے لگتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔
مراقبہ کی یہ کیفیت مرتبہ احسان کا ایک درجہ ہے۔ جب کوئی بندہ اس کیفیت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے اوپر غیب کی دنیا کے دروازے کھل جاتےہیں اور وہ بتدریج ترقی کرتا رہتا ہے۔ فرشتے اس سے ہم کلام ہوتے ہیں۔
بندہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ رکوع اور سجدہ میں فرشتے اس کے ساتھ ہیں۔ عالمِ خواب اور عالمِ بیداری میں جنت کی خوبصورت وادی، جنت کے خوش نما باغ، وہاں موجود حورو غلماں اس کے سامنے آ جاتےہیں۔نمازا ور مراقبہ کے ذریعے جب کوئی بندہ غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اندر خشوع و خضوع اور گداز اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ وہ خود کو عرش کے نیچے اللہ کے سامنے سربسجود دیکھتا ہے۔ یہی وہ یقینی عمل ہے جس کے ذریعے ہمارے اسلاف اولیاء اللہ نے ہادیِ برحق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی ہے۔ یہی وہ صلوٰۃ ( مراقبہ) ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کےارشاد کے مطابق “مومن کی معراج ہے”۔