موضوع: قائداعظم ایک عظیم سیاستدان
نہ جانے کتنے رہبر اس دنیا میں ہیں لیکن
زمانہ آج بھی محسوس کرتا ہے کمی ان کی
اے مسند صدارت کی رونق اور ارباب بزم!
میرا قائد ،قائداعظم ہے۔ جو ایک عظیم قائد اور راہبر و رہنما کی حیثیت سے برصغیر کے افق پر ابھرا۔جیسے مشرق سے سورج طلوح ہوتا ہے۔اور چاردانگ عالم کو منور کرتے ہوئے اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے۔بلکہ ہر اندھے کو بھی خبر ہو جاتی ہے کہ سورج طلوع ہو چکا ہے ایسے ہی سیاست کے افق پر ابھرنے والا قائد بھی ایسا ہی قا ئد تھا۔کہ سیاست کے نام پر بازی گری کا کھیل کھیلنے والے اندھوں کو بھی سیاست میں کئی نئے راستے مل گئے۔
حضرات گرامی!
ہندوستان کے خوابیدہ مسلمانوں کی قسمت جاگی اور ایک ایسا رہبر مل گیا جس کی ہر ٹھوکر سے ایک نئی راہ تشکیل ہوتی تھی۔وہ بظاہر نحیف و نزار،ہڈیوں کا ڈھانچہ،لمبا تڑنگا لیکن عزم و ہمت کا کوہ گراں۔فہم و فراست کی دنیا کا بادشاہ اور سیاست عالم کے لئے ایک زندہ مثال محمد علی جناحؒ۔
اندوہ میں تسکین کے پہلو نکل آئے
دل خوش ہوا اتنا کہ انسو نکل آئے
یارب ہو ترا خاص کرم ہم پہ ہمیشہ
رحمت ہو تیری قائداعظم پہ ہمیشہ
حضرات محترم!
اس سیاست کی دنیا کے میرے رہبر و رہنما کو کوئی دیکھے ان کی بے داغ زندگی کا مطالعہ کرے تو اسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہو گا۔کہ جب تک وہ جملہ قائدانہ صلاحیتیں موجود نہ ہوں جو ایک اچھے قائد میں ہونی چاہیئں تو دنیا اسے قائد و راہبر تسلیم کر ہی نہیں سکتی۔سیاست کے نام پر بازی گری کرنے والا بازی گر تو کہلا سکتا ہے۔لیکن سیاست دان نہیں ہوسکتا۔آج کے دور میں ہم سیاست اور سیاست دان کے نام سے بدک سے کیوں جاتے ہیں صرف اس لئے کہ میدان سیاست میں آنے والےنام و نمود کے بھوکے،ایمان و ضمیر کے سودے کرنے والے چند کھوٹے سکوں پر وطن و ملت کو بیچ کھانے والے،کرسی اقتدار کی عروسہ کے چہرے سے نقاب سرکنے کی قیمت میں میر جعفروں کے لبادے اوڑھ لینے والے سامنے آ گئے ہیں۔اب تو ہر شحص ایسی سیاست دیکھ کر چیخ اٹھا ہے۔
کوچہ کوچہ قریہ قریہ میں سیاست بٹ گئی
گویا میرے شہر کے سب لوگ پاگل ہو گئے
ہر کسی کے ہاتھ میں صابر ہے نفرت کی چھری
کوچہ و بازار جیسے سارے مقتل ہو گئے
جناب صدر!
یہی وجہ ہے کہ ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے پہرے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ہر گھر کی چار دیواری ایسے ہی ساستدانوں کے ہاتھوں ریت کی دیوار بنتی جا رہی ہے۔لیکن آج بھی اگر اسی قائد کی سیاست کا لبادہ اوڑھ کر پھر کوئی نحیف و نزار،کمزور و ناتواں،لیکن قول کا پکا،عزم کا پختہ،ہمت کا دھنی،ملک و ملت کی سرحدوں کو بنانے والا۔ہر گھر کی چار دیواری کو سہارا دینے والا،جیب میں کھوٹے سکے رکھ کر بھی سونے چاندی جیسی چمک دکھانے ولی پیش کشوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا دینے والا کوئی قائد سامنے آئے تو یہ سارےسیاستدان اپنے بستر لپیٹ لیں۔ان کی چاہتوں کی نیا ڈوبتی ہوئی نظر آئے گی اور پوری قوم سکھ کی نیند سو جائے کہ ان کا قائد جاگ رہا ہے۔
نہ جانے کتنے راہبر اس دینا میں ہیں لیکن
زمانہ آج بھی محسوس کرتا ہے کمی ان کی
حضرات محترم!
آیئے ہم اپنے قائد کی سیاسی زندگی کا ایک اور زاویہ نگاہ سے مطالعہ کرتے ہیں۔ایک مخلص کارکن جب میدان سیاست میں قدم رکھتا ہے۔تو کئی مگرمچھ آگے بڑھ کر اسے کھانے کو پل پڑتے ہیں۔لیکن اگر وہ عزم و ہمت کا کوہ گراں بن کر ،شجاعت و عدالت کا پیکر بن کر سامنے آ کھڑا ہو تو ان مگر مچھوں کے دانت ایسے کھٹے ہو جاتے ہیں۔کہ دوبارہ اس کی طرف منہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔میرے قائد میں یہ پہلو بھی بہت زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔میرا قائد بظاہر نحیف و نزار ہے لیکن اس کی جرأت سیاست پہ نظر پڑتی ہے تو نظریں خیرہ رہ جاتی ہیں۔ان کی جیب کے کھوٹے سکوں سے لے کر برصغیر کی بڑی طاقت تک کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو اس قائد سے مخلص ہو خفیہ سازشوں سے قاتلانہ حملوں تک وہ کون سا قدم ہے جو اس کے خلاف نہیں اٹھایا گیا۔لیکن یہ جسم کا لاغر،جرأت وہمت کا پیکر بن کر ان تمام طوفانوں بادوباراں کے تھپیڑے کھانے کے باوجود اس وقت تک ڈٹا رہتا ہے۔جب تک طوفان خود تھک ہار کر اپنا منہ موڑ لینے پر مجبور نہیں ہو جاتا۔
اے قائداعظم چمن شوق کے مالی
قدرت نے تجھے دی تھی عجیب فطرت عالی
بنیاد گلستاں کی بیاباں میں جو ڈالی
ہر خار کے چہرے سے چمکنے لگی لالی
گردش میں سر بزم جو یوں جام رہے گا
تاحشر زمانے میں تیرا نام رہے گا
صدر ذی شان !
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عظیم قائد نے اپنی سیاست کا آغاز کانگرس میں شرکت سے کیا ۔لیکن ایک دوراندیش اور معاملہ فہم سیاستدان کی حیثیت سے جلد ہی اس نیتجہ پر پہنچ گئے کہ سیاست گری کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کر کے ہندو مکار کی جھولی میں جا پڑیں بلکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے آزادی ہند کے نعرے کے ساتھ ساتھ آزادی مسلم کا نعرہ بھی بلند کیا۔مسلم لیگ کی بنیادوں کو مستحکم کیا اور مسلم عوام میں اس کا وقار بحال کیا۔مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آنے کا پیغام گھر گھر پہنچایا حتیٰ کہ پورے برصغیر میں مسلم لیگ مسلمانوں کے دلوں کی دکھڑکن بن گئی۔یہی دھڑکنیں جب ایک قائد کے دل کی دھڑکن کے ساتھ بن کر دھڑکنے لگیں تو انہیں دھڑکنوں کی صدا 14 اگست 1947ء کی صبح کو پاکستان زندہ باد کی آواز گونجنے لگیں۔
چشم روشن پاکستان
دل کی دھڑکن پاکستان
صحرا صحرا اس کی دھوم
گلشن گلشن پاکستان
اپنی ہستی کا حاصل
لے کے رہیں گے پاکستان
اپنا مامن پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان
عزیزان محترم!
اب آخر میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سیاست پر گفتگو کو سمیٹتے ہوئے اس حسرت و چاہت کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ جس کا اظہار ایک ہندو رائٹر نے بھی کیا اس نے کہا کہ اگر ہمارے پاس ایک ایسا جناح ہوتا اور مسلمانوں کے پاس ہزاروں گاندھی ہوتے پھر بھی ہندوستان تقسیم نہ ہو سکتا۔
یا رب تجھے جمال گل تر کا واسطہ
رعنائی قمر، رخ اختر کا واسطہ
نور چراخ مہر منور کا واسطہ
پروردگار! روح پیمبر کا واسطہ
ان حاکموں کے قلب کو بھر دے خلوص سے
یا پھر ہ مارے قائد اعظم کو بھیج دے