تربیت
زندگی کچھ اور شے ہے ، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے ، علم ہے سوز دماغ
معانی | |
---|---|
پرورش ،اصلاح | تربیت |
جگر کا جلانا | سوز جگر |
دماغ کا جلانا | سوزدماغ |
مطلب: شاعر اس نظم میں یہ بتانا چاہتا ہے کہ جب تک آدمی کی تربیت(اصلاح) نہ ہو علم بے کار ہے۔اصل زندگی تربیت مانگتی ہے۔صرف علم فائدہ مند نہیں ہے۔اس لئے شاعر کہتا ہے کہ زندگی اور علم دو الگ الگ چیزیں ہیں۔زندگی خون جگر پینے یا جگر کی تپش کا نام ہے۔عشق سے آشنا ہونے کا نام ہے جب کہ علم صرف دماغ کو جلاتا ہے۔اس میں صرف دماغ خرچ ہوتا ہے۔اس سے زندگی کی اصل حقیقت ہاتھ نہیں آتی۔وہ علم جو آدمی کی انسانی اور روحانی پرورش نہیں کرتا بے کار ہے۔
علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
معانی | |
---|---|
ذائقہ | لذت |
ملنا | ہاتھ آنا |
نشان ،پتہ | سراغ |
مطلب: علم میں دولت حاصل کرنے،اشیا پر قابو پانے کی طاقت پیدا کرنے اور کئی قسم کی دماغی اور جسمانی ذائقوں اور لذتوں کے وصف موجود ہیں لیکن اس میں بڑی کمی یہ ہے کہ اس کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنا پتہ نہیں ملتا کہ میں کون ہوں اور کیوں ہوں یعنی وہ خود سے بے گانہ رہتا ہے۔
اہل دانش عام ہیں ، کم یاب ہیں اہل نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ!
معانی | |
---|---|
دانا،فکر والے،علم والے | اہل دانش |
کم ملتے ہیں | کم یاب |
نظر رکھنے والے،مشاہدہ ذات کرنے والے | اہل نظر |
پیالہ | ایاغ |
مطلب: علم والے تو عام ملتے ہیں لیکن نظر والے(جن کو حقیقت دکھائی دے چکی ہو جو مشاہدہ حق کر چکے ہوں)بہت کم ملتے ہیں۔اے مخاطب اگر تو علم کی بجائے اہل نظر کی صحبت اختیار کرتا تو تیری زندگی کا پیالہ زندگی کی حقیقت کی شراب سے خالی نہ رہتا۔تجھے بھی اپنا اور اپنی زندگی کا بھی پتہ مل جاتا اور تو آدمی نما حیوان نہ رہتا۔
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ!
معانی | |
---|---|
استاد | شیخ مکتب |
دیا سلائی | کبریت |
دیا | چراغ |
مطلب: آج کل کے مدرسوں میں استاد جو کچھ پڑھاتے ہیں ان کے طریقے تعلیم سے طالب علم کا دل کیسے کشادگی حاصل کر سکتا ہے؟ یعنی نہیں حاصل کر سکتا اس سے دل زندہ نہیں ہوتا ہے،مر جاتا ہے اور جب دل مر جاتا ہے تو آدمی آدمی نہیں رہتا حیوان بن جاتا ہے۔کیا دیا سلائی سے بجلی کا چراغ(بلب) روشن کیا جا سکتا ہے۔ہر گزنہیں۔اسی طرح موجودہ تعلیم کا ہے،جس سے دماغ تو روشن ہو جاتا ہے لیکن دل تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔علم کا اصل مقصد طالب علم کی روحانی اور انسانی تربیت ہے جو موجودہ دور کے مدارس اور مدرس پورا نہیں کر رہے۔