مرگ خودی
خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
معانی | |
---|---|
خودی کی موت | مرگ خودی |
باطن | اندروں |
کوڑھ کے مرض میں مبتلا | مبتلائے جزام |
مطلب: اس پوری نظم میں اقبالؒ نے خودی(خودشناسی)کی موت کا یا نہ ہونے کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے نہ ہونے سے اہل مغرب کے باطن میں اندھیرا ہے اور مشرق والے بھی اس کے نہ ہونے سے خیالی اور اعمالی اعتبار سے کوڑھ جیسے مرض میں مبتلا ہیں جو بڑا مہلک ہے۔
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب
بدن عراق و عجم کا ہے بے عروق و عظام
معانی | |
---|---|
بغیر تپش اور تڑپ کے | بے تب وتاب |
عرق کی جمع یعنی رگیں | عروق |
عظم کی جمع یعنی ہڈیاں | عظام |
مطلب: خودی کے نہ ہونے سے یا اس کے مرجانے کے نیتجے میں میں نے اہل عرب کو دیکھا ہے کہ ان کی جان میں نہ حرارت ہے نہ تڑپ ہے۔میں نے عراق اور ایران کے جسموں کو بھی دیکھا ہے یعنی ان ملکوں کے لوگوں کو بھی دیکھا ہے ان میں نہ رگیں ہیں اور نہ ہڈیاں ہیں اور جس جسم میں نہ رگیں ہوں اور نہ ہڈیاں ہوں وہ بیکار یا مردہ جسم ہوتا ہے۔
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!
معانی | |
---|---|
ٹوٹے ہوئے بازو یا پر | شکتہ بال |
پنجرہ | قفس |
گھونسلہ | آشیانہ |
اس شعر میں علامہ اقبالؒ نے اس ہندوستان کی بات کی ہے جو انگریز کا غلام تھا اور کہا ہے کہ اس ملک کے رہنے والے ان پرندوں کی طرح ہیں جن کے پر اور بازو ٹوٹ چکے ہیں اور وہ پنجرے میں رہنے کو تو جائز اور پسندیدہ سمجھتے ہوں لیکن اپنے گھونسلے میں رہنے کو حرام یا برا جانتے ہوں۔مراد یہ کہ اہل ہند اپنی غلامی پر رضا مند ہیں اور آزادی کے لئے کوشش نہیں کر رہے۔
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامۂ احرام!
معانی | |
---|---|
حرم کا پیر یعنی مسلمانوں کا پیشوا | پیر حرم |
حاجیوں کے جسم پر کا لباس | جامہ احرام |
مطلب:خودی کی موت کا ایک نیتجہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ مسلمانوں کے پیشوا اور دینی رہنما حاجیوں کے جسم پر پہنا ہوا احرام(لباس) تک بیچ کھانے پر مجبور ہیں یعنی وہ اپنے مفاد اپنی غرض اور اپنی شکم پروری کے لئے دین تک کو بیچ رہے ہیں۔اگر وہ خودی یعنی خود شناسی سے آشنا ہوتے تو ایسا کبھی نہ کرتے اور غریبی میں امیری کے مزے لیتے۔