صاحب نگاہ کے سامنے،فاصلے،فاصلے نہیں رہتے۔زمان و مکاں کی وسعتیں اس کی چشم بینا کے سامنے سمٹ جاتی ہیں۔
نظر ملے تو دل کیوں نہ ملے۔دل مل جائے تو کیا نہ ملے۔دیکھنے والے سننے والے بنا دئیے جاتے ہیں۔وہ لفظ کو دیکھتے ہیں اس کی آواز سنتے ہیں۔
محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی،یہ عطا ہے،یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہی ہے۔بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک چہرہ جب انسان کی نظر میں آتا ہے تو اس کا انداز بدل جاتا ہے۔کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے بلکہ ظاہر و باطن کا جہان بدل جاتا ہے۔اسکی تنہائی میں میلے ہوتے ہیں۔
زندگی صرف حاصل ہی نہیں ایثار بھی ہے۔
رات کی تاریخی میں دور سے نظرآنے والا چراغ روشنی تو نہیں دے سکتا لیکن ایسی کیفیات مرتب کرتا ہے کہ مسافر مایوسی سے نکل کر امید تک آپہنچتا ہے اور امید سے یقین کی منزل دو قدم پر ہے۔
محبت محبوب کی اطاعت میں مجبوری کی نفی کا نام ہے۔
ذکر سے محویت حاصل کرو۔سکون مل جائے گا۔
حسن،عشق کا ذوقِ نظر ہے اور عشق قربِ حسن کی خواہش کا نام ہے۔
اپنے آپ کو اپنے سے بڑا سمجھنا یا اپنے سے کم تر جاننا انسان کو مضطرب رکھتا ہے۔
تسلیم کے بعد تحقیق گمراہ کر دیتی ہے۔
آسمانوں پر نگاہ ضرور رکھو۔لیکن یہ نہ بھولو کہ پاؤں زمین پر ہی رکھے جاتے ہیں۔
انسان جتنی محنت خامی چھپانے میں صرف کرتا ہے اتنی محنت میں خامی دور کی جا سکتی ہے۔
بہترین کلام وہی ہے جس میں الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوں۔
سب سے اچھا علم وہ ہے جو دل میں اتر کر عمل میں ظاہر ہوتا ہے۔
ناپسندیدہ انسان سے پیار کرو،اِس کا کردار بدل جائے گا۔
جو انسان اللہ کی طرف جتنا عروج حاصل کرتا ہے اتنا ہی انسانوں کی خدمت کیلئے پھیلتا ہے۔
سورج کہلانے کا شوق ہو تو روشنی پیدا کرو۔
اضطراب دراصل اس فرق کا نام ہے جو ہماری خواہشات اور ہمارے حاصل میں رہ جاتا ہے۔