ہمارا دوست
ہم جب کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری کائنات اللہ کی آواز ہے ۔ اللہ نے اپنی آواز میں کن کہا تو ساری کائنات وجودمیں آگئی۔ خدا جب اپنا تعارف کراتا ہے تو کہتا ہے کہ میں مخلوق کا دوست ہوں۔ جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو نہیں بھولتا اسی طرح خدا بھی اپنی مخلوق کو کبھی فراموش نہیں کرتا ۔ وہ خدا جو ہمارا رب ہے ہمارے لئے ہر طرح کے وسائل پیدا کرتا ہے اور ہمیں زندگی کے نئے نئے مراحل اور نئے نئے تجربات سے گزارتا رہتا ہے بلا شک و شبہ ہمارا دوست ہے ۔
کتاب : کشکول
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
محبت
اللہ کہتا ہے میں چھپا ہوا خزانہ تھا، پس میں نے محبؔت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا تا کہ میں پہچانا جاؤں ۔ محل نظر یہ بات ہے کہ اللہ خود کہتا ہے ’’میں نے محبت کے ساتھ تخلیق کیا ہے ۔‘‘ یعنی اللہ کو پہچا ننے کا واحد ذریعہ محبت ہے اور اللہ سے دور کرنے والا جذبہ محبت کے برعکس نفرت ہے ۔
محبوب
بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اپنے ماں باپ کو پیار کرتا ہے پھر اپنے بہن بھائی کو اور جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے وہ اپنے کنبے، سماجی، فرقے، ملک، قوم اور نوع انساں سے پیار کرنا شروع کر دیتا ہے لیکن اس کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کے اندر محبت اور پیار کی تشنگی باقی رہتی ہے۔ آج کا بچہ کل کا بوڑھا ہونے تک پیاسا ہی رہتا ہے اور یہ تشنگی اس وقت تک نہیں بجھتی جب تک وہ نہیں جان لیتا کہ سچا، بے غر ض اور عظیم و الشان محبوب کون ہے پیار کی پیاس اس وقت بجھ جاتی ہے جب ہم اپنے لازوال محبوب جلؔ جلالہٗ کو آنکھ سے دیکھ لیتے ہیں۔