Allama Iqbal Speech in Urdu | Iqbal’s Day Speech In Urdu
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
صدر زی وقار! اور محترم حاضرین محفل! آج کے اس ایوان فکر و ادب میں مجھے اس صداقت کو اجاگر کرنا ہے کہ
“ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں”
جناب والا! انسانی کائنات خوب سے خوب تر کی جستجو میں ہے۔ زمانہ مسلسل محو سفر ہے۔ وقت کا دھارا ہر دم آگے کو بہہ رہا ہے۔ نئے نئے حقائق وقت کی آغوش سے ابھر رہے ہیں۔ کائنات کے اسرار برق رفتاری کے ساتھ واضح ہو رہے ہیں۔ ایسے عالم میں مغنئ فطرت علامہ محمد اقبال کی آواز ذوق جستجو کو آمادہ کار رکھنے کے لیے ابھرتی ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
صدر والا قدر! آغاز کائنات سے لے کر اب تک کے ارتقائی سفر پر نظر دوڑائیں تو حیرت ہوتی ہے کہ عالم انسانیت نے کس تیزی سے اپنے رنگ و روپ کو نکھارا ہے۔ ناممکنات ایک پل میں ممکنات میں ڈھل رہے ہیں۔ کتنے ہی خواب حیرت انگیز تعبیر سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ صداقتوں نے اپنے چہرے سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ زمینوں نے اپنے سینے کھول دئیے ہیں اور انسان خلاؤں کو تسخیر کرتا ہوا اس عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے
جو تھا، نہیں تھا، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرف زمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ
حاضرین کرام! ستاروں سے آگے جو جہاں آباد ہیں انہیں سر کرنے کے لیے جرات رندانہ یعنی عشق بے کراں کی ضرورت ہے۔ یہی جذبہء عشق ممولے کو شہباز سے لڑاتا اور زمین پر بیٹھ کر تسخیر مہر و ماہ کے منصوبے بناتا ہے۔ جب جذبہ عشق اپنے امتحان میں سرخرو ہو جاتا ہے تو پھر آدم خاکی ، خلیفۃ اللہ بن جاتا ہے مگر جس کے ہاتھوں میں ساری خدائی تھما دی گئی ہے۔
صدر محترم! آج کا موضوع ہمیں ذوق پرواز بھی بخشتا ہے اور جذبہ عمل پیہم بھی ۔ ہم مسلمان ہیں ، ہمارے نبی کریم ﷺ نے قرآن حکیم کی صورت میں جو چودہ صدیاں قبل نسخہ کیمیا عطا فرمایا۔ اسی نسخہ کیمیا نے ہمیں اس دور میں خلاؤں کی تسخیر کا پیغام دیا، جب پوری دنیا اوہام کے سایوں میں بھٹک رہی تھی ۔ قرآن کریم نے ہمیں مدتوں پہلے بتا دیا تھا کہ چاند، سورج اور سیاروں کو تمھارے لیے تسخیر کر دیا گیا ہے۔ قرآن پاک نے ہمیں دعوت تدبر دی، پیغام تفکر دیا، حالات کے قلزم میں غواصی کر کے تسخیر کائنات کی طرف راغب کیا۔ معراج رسول ﷺ بھی تو تسخیر افلاک کا ایمان آفریں اشارا ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی ز د میں ہے گردوں
جناب والا! ستاروں سے آگے جو جہاں ہیں مرد مومن ان تک بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ آج کے انسان کی بلند ہمت نے وہ کچھ کر دکھایا جس کا ایک صدی پیشتر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ فاصلے سمٹ گئے، پوری کائنات “گلوبل ولیج” میں تبدیل ہو گئی۔ تصورات عمل میں ڈھل گئے۔ زمین سے خلائی سیارے ابھرے اور انسان نے چاند پر قدم رکھ کر نئی منزلوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔
آج ضرورت ہے کی قرآن حکیم کے پیغام تفکر سے کام لیں۔ بو علی سینا ، عمر خیام، رازی، جابر بن حیان ہمارے ہی اجداد تھے جن کا علمی ورثہ غیروں کو ستاروں پر حکمرانی بخش رہا ہے ۔ یہ دولت ہمارے اجداد کی ہے تو اس کا امین ہم کو ہی بننا ہے۔ ہم وہ ہیں کہ جن کے بارے میں تاریخ اپنا فیصلہ سنا چکی ہے۔
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
تیری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی
جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے
صدر محترم! پاکستان کو قائم ہوئے ساٹھ برس ہو گئے مگر ہم خود کو صحیح معنوں میں پہچان نہیں پائے۔ ذرا سی دیر کو پہچان عطا ہوئی تو ہمیں عظیم ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل ہو ہی گیا۔ اگر ذرے ایٹم کا روپ اختیار کر سکتے ہیں تو مردان حق زندگی کو پیمانہ امروز و فرداسے ماپنے کے بجائے ضمیر کن فکاں کے مظہر کیوں نہیں بن سکتے۔ قدرت ہم پر مہربان ہے۔ فطرت ہمیں ممکنات زندگی کی امین قرار دے رہی ہے ۔ بات فقط یہی ہے کہ عشق کے امتحاں میں کس طرح سرخرو ہوا جا سکتا ہے۔
حاضرین محفل ! آج بنجر صحراؤں پر گلاب مہک رہے ہیں۔ آسمان ہمار ی قدم بوسی کے لیے مچل رہے ہیں ۔ زندگی ہمیں پائندگی کے انداز سکھا رہی ہے۔ مہرو ماہ و مشتری ہماری راہ تک رہے ہیں۔ زمانہ اہل یقیں کے فاتحانہ سفر کا اندازہ کر رہا ہے۔ تقدیر نے اپنی قوت اصحاب شوق کی تدبیر میں پوشیدہ کر دی ہے۔ آئیے ہم گوش ہوش سے وقت کا پیغام سنیں۔ یہ پیغام فطرت بھی ہے اور آوازہُ عمل بھی۔
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان سجود
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تیری شوخئ فکر و کردار کا